Monday 18 January 2016

پنج پیر کی پہاڑیوں کا فسوں پنج پیر کی پہاڑیوں کا فسوں

سیاحت کدہ۔۔۔پاکستان کی پراسرار،حسین وجمیل وادیوں کے بارے میں ’’دنیا پاکستان ‘‘کا منفرد معلوماتی سلسلہ ممتاز سیاح سجاد عزیز خان کے قلم سے

میں ایک سیاح ہوں اور الحمد اللہ  پاکستان کے ایسے مقامات کو دیکھ چکا ہوں جن پر گماں ہوتاہے کہ پاکستان تو درحقیقت یہی ہے۔اپنی تہذیب وتمدن، خوبصورتی انفرادیت کی بدولت یہ علاقے غیر معمولی طور پر منفرد مقامات کا درجہ رکھتے ہیں اور انہیں دیکھ کر پاکستان کی قدروقیمت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان دنیا کا سب سے حسین اور پرشکوہ ملک ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت اپنے وطن عزیز کی خوابیدہ اور اسرار میں لپٹی وادیوں اور کوہساروں اور ان میں بسنے والی تہذیبوں سے غافل ہے ۔مثلا میں آپ کو پنج پیر کی پہاڑیوں میں لئے چلتا ہوں ۔
راولپنڈی سے راولاکوٹ کشمیرکی جانب جاتے ہوئے جب ہم کہوٹہ سے گزرتے ہیں تو کہوٹہ سے راولاکوٹ
کے درمیان ایک جگہ نرڑ آتی ہے۔ نرڑ سے ہی ایک سڑک انتہائی خوبصورت پہاڑی سلسلے کی طرف جاتی ہے۔اس پہاڑی سلسلے کو پنج پیر کی پہاڑیاں کہا جاتا ہے۔
پنج پیر دنوئی کوٹلی ستیاں کہوٹہ کا سب سے اونچا پہاڑی مقام ہے۔سردیوں کے موسم میں یہاں ہر سال کئی فٹ تک برف پڑ جاتی ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق اس جگہ کو پنج پیر اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ پنج پیر کے اونچے مقام پر ایک مزار ہے جہاں پانچ بزرگ آ کر رہے تھے۔ اس جگہ پر ایک ریسٹ ہاوس بھی ہے جو کہ 1928 ؁ٰٰ ؁ء میں تعمیرکیا گیاتھا۔ یہ ریسٹ ہاوس محکمہ جنگلات کی زیرسرپرستی ہے اور یہ بہتر ہے کہ رات گزارنے کے لئے پیشگی بکنگ کروالی جائے۔ اس علاقے کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہاں پر ایسی پہاڑیاں ہیں جو کہ پاکستان کے کسی اور علاقے میں آپ کو نہیں ملیں گی۔ یہ اپنی بناوٹ اور خوبصورتی کے لحاظ سے دوسرے مقامات سے منفرد ہے۔ یہ پہاڑیاں Rock Climbingکے لئے بہترین ہیں مگر یہ اندازہ نہیں ہے کہ ان کو اس مقصد کے لئے کبھی استعمال کیا گیا ہو۔
کسی صاف دن کی روشنی میں یہاں سے کاغان ویلی کے دوسرے پہاڑوں کے ساتھ ساتھ "مکڑا چوٹی"کو اور مشرق کی جانب دریائے جہلم کو اپنی بھرپور رعنائیوں کے ساتھ بہتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ لاہور اور راولپنڈی کے سیاحوں کے لئے یہ قریب ترین خوبصورت سیاحتی مقام ہے۔راولپنڈی سے دو گھنٹے اور لاہور سے تقریباًچھ گھنٹے میں پہنچا جا سکتا ہے۔
انفرادی ، اجتماعی اور حکومتی کوششوں سے ان خوبصورت علاقوں سے دنیا کو متعارف کروایا جا سکتا ہے اور یہاں کی ترقی میں کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔ 

No comments:

Post a Comment