Sunday, 2 August 2015

سوات کا 18 قسم کا سیب پیدا کرنے والا گاؤں- گوالیری

سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے محض 38 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع گاؤں گوالیری، سوات کے ان چند گنے چنے دیہات میں سے ایک ہے جو موسم گرما میں اپنے معتدل موسم کی بدولت اٹھارہ قسم کا مختلف سیب پیدا کرتا ہے۔ یہاں کا سیب ذائقہ میں نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی یکساں مقبول ہے اور ہر 
جگہ یہ سوات کے سیب کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تقریباً تین مربع کلومیٹر پر مشتمل گاؤں گوالیری دو ندیوں مارکَرکَٹ اور ارنوہئی کے بیچ واقع ہے۔ سوات کے دیگر زرخیز دیہات کی طرح گوالیری میں ہر قسم کی سبزی، ساگ، گندم، جوار، پھلوں میں املوک، خوبانی، آلوچہ، شفتالو اور ناشپاتی سے لے کر انار اور انگور تک کی فصلیں پیدا ہوتی ہیں، مگر جس فصل کے لیے ’’گوالیریٔ‘‘ پورے ملک میں بالعموم اور صوبہ خیبر پختونخوا میں بالخصوص مشہور ہے، وہ 'سیب' ہے۔
گوالیریٔ کے ایک مقامی زرعی ماہر باچا نواب کے مطابق "یہاں سیب کی کل اٹھارہ قسمیں پیدا ہوتی ہیں جنہیں اہل علاقہ مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔ان میں کچھ علاقائی، کچھ قومی اور کچھ بین الاقوامی نام ہیں"۔ باچا نواب کے بہ قول’آمری'، 'شنہ' اور 'شیشہ' سیب کی تین ایسی قسمیں ہیں جنہیں بنا کسی خاص دیکھ بھال کے ایک سال تک کسی بھی جگہ اسٹور کیا جاسکتا ہے۔ ذکر شدہ تین اقسام باقی ماندہ پندرہ مختلف اقسام جن میں ہڑی، فرانسی، کنگ اسٹار، کشمیری، باسوٹی، سوٹہ، کالاکولا، رئیل گالا، سمریٹ، گالا ماس، مونڈی گالا، گاجرہ، ریڈ چپس، مالوچی اور وطنی شامل ہیں، کے مقابلے میں لانگ لائف پھل ہیں۔
ذکر شدہ تمام کی تمام اقسام ذائقہ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں مگر عام طور پر 'فرانسی سیب' اہل علاقہ کے ہر خاص و عام میں یکساں مقبول ہیں۔
گاؤں گوالیریٔ کو عام طور پر باغات یا پھلوں کا گاؤں کہا جاتا ہے۔یہاں سیب سے لے کر چیری تک ہر قسم کا پھل پیدا ہوتا ہے۔ یہاں کا دوسرا اہم ترین پھل شفتالو ہے جس کی تقریباً نو قسمیں یہاں پیدا ہوتی ہیں۔
یہاں کے ایک اور زرعی ماہر عبدالقدیم پچاس سال سے گاؤں کے باغوں میں پیوند کاری اور مختلف پھلوں کے درختوں کی تراش خراش کا کام کرتے ہیں۔ ان کے بقول یہاں آپ جو بھی پھلدار پودا لگانا چاہیں، لگا سکتے ہیں۔ اس کی زمین ہر قسم کے پھلوں اور فصلوں کے لیے موزوں ہے۔ ’’عام طور پر سبھی قسم کے سیب کے درخت گوالیری میں پائے جاتے ہیں،جن کی پیدوار ہم گرمیوں کے موسم میں حاصل کرتے ہیں۔ مگر اب امریکن ایپل جسے مقامی زبان میں ’’امریکی سیب‘‘ کہتے ہیں، ایک ایسا پھل ہے جس کی پیداوار سردیوں کے موسم میں حاصل کی جاتی ہے۔ سیب کی ہر قسم کا اپنا ایک الگ ذائقہ ہے لیکن فرانسی سیب کی بات ہی کچھ اور ہے۔
گاؤں کی کل آبادی 1165 افراد پر مشتمل ہے جس میں زیادہ تر کا کام کھیتی باڑی اور اپنے باغوں کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ عبدالقدیم کے مطابق گاؤں چونکہ محدود ہے۔ اس لیے یہاں چھوٹے بڑے سب باغات کی تعداد بمشکل سو کے قریب ہوگی۔ 'گوالیری کے باغات کا سیب نہ صرف اندرون ملک پسند کیا جاتا ہے بلکہ کئی اقسام جن میں فرانسی، رئیل گالا اور سمریٹ وغیرہ شامل ہیں کو بیرون ملک بھی برآمد کیا جاتا ہے۔ ملک کے اندر اور باہر یہ سوات کے سیب کے نام سے مشہور ہے '۔
ماہ اگست میں سب پہلے 'سمریٹ' نامی سیب کا پھل پک کر تیار ہوجاتا ہے۔ عبدالقدیم کے مطابق 'سمریٹ کی چار قسمیں جنھیں ہم مقامی طور پر گلاسی، پلنہ سمریٹ، کچہ اور منڈہ گالا کے ناموں سے پکارتے ہیں۔ ان اقسام میں واحد منڈہ گالا کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کے ایک پھول سے بسا اوقات بارہ عدد تک پھل پیدا ہوتے ہیں جو کہ رنگ میں سرخ مائل ہوتے ہیں۔ منڈہ گالا کا ایک پودا اکثر پورے باغ کا خرچہ پورا کردیتا ہے مگر اس کی دیکھ بھال آسان نہیں'۔
ماہ اگست کے اوائل میں یہاں کے باغات کے مالکان سمریٹ کی پیداوار حاصل کرکے اسے دو تین ہفتوں کے لیے باغوں میں ہی اسٹور کردیتے ہیں۔اس دوران اس کے اوپر پلاسٹک کے بڑے بڑے شیٹ اور گھاس پھوس ڈالا جاتا ہے۔ اس عمل کے بعد اس کی روایتی طور پر پیکنگ شروع ہوجاتی ہے۔ اگست کے آخری ہفتہ میں مینگورہ شہر میں قائم فروٹ منڈی میں گوالیری کا سیب موجود ہوتا ہے، جہاں پندرہ بیس روپے کلو کے عوض اسے مینگورہ شہر کے منڈی مالکان کے حوالے کیا جاتا ہے۔ وہاں سے اسے اندرون ملک قائم بڑی فروٹ منڈیوں میں بھیجا جاتا ہے۔ماہ اگست کے اوائل میں یہاں کے باغات کے مالکان سمریٹ کی پیداوار حاصل کرکے اسے دو تین ہفتوں کے لیے باغوں میں ہی اسٹور کردیتے ہیں۔اس دوران اس کے اوپر پلاسٹک کے بڑے بڑے شیٹ اور گھاس پھوس ڈالا جاتا ہے۔ اس عمل کے بعد اس کی روایتی طور پر پیکنگ شروع ہوجاتی ہے۔ اگست کے آخری ہفتہ میں مینگورہ شہر میں قائم فروٹ منڈی میں گوالیری کا سیب موجود ہوتا ہے، جہاں پندرہ بیس روپے کلو کے عوض اسے مینگورہ شہر کے منڈی مالکان کے حوالے کیا جاتا ہے۔ وہاں سے اسے اندرون ملک قائم بڑی فروٹ منڈیوں میں بھیجا جاتا ہے۔
بڑے شہروں میں پھلوں کو اسٹور کرنے کی سہولت موجود ہوتی ہے جہاں اسے ہفتوں اسٹور رکھا جاتا ہے۔ پھر جب مقامی طور پر سیب کی مارکیٹ میں مکمل قلت ہوجاتی ہے، یا پھر رمضان یا عید کے موقعوں پر درمیانے درجے کی سیب کی کم سے کم قیمت عام صارف کے لیے سو سے 120 روپے فی کلو مقرر کی جاتی ہے۔
اتنے بڑے فرق کو دیکھتے ہوئے گاؤں گوالیری کے رہائشی باچا زادہ شاکی نظر آتے ہیں۔ ان کے بقول 'آج بھی مینگورہ کی فروٹ منڈی میں گوالیری کے سیب کی وہی قیمت ہے جو 1985 میں فی کریٹ مقرر کی گئی تھی۔ تیس سال کے عرصہ میں دیگر ضروریات زندگی کی قیمتیں آسمان پر جاپہنچیں لیکن گوالیریٔ کا سیب اپنے دام نہ بڑھا سکا۔ متعلقہ حکام کو چاہیے کہ اس بارے میں سنجیدہ اقدامات اٹھائیں، تاکہ باغات کے مالکان اپنے باغوں کو مارکیٹوں اور کمرشل پلازوں میں تبدیل کرنے پر مجبور نہ ہوں'۔
گوالیری کی 95 فیصد زمین پر آج سے صرف دس سال پہلے سیب کے باغات اور چھوٹے بڑے کھیت دکھائی دیتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اب یہاں کے لوگ باغات اور کھیتی باڑی پر چھوٹی بڑی دکانوں، مارکیٹوں اور کمرشل پلازوں کی تعمیر کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس حوالہ سے ایک غیر سرکاری ادارے سوات شرکتی کونسل کے شہریار کہتے ہیں کہ اب لوگوں کی ترجیحات باغات اور کھیتی باڑی نہیں رہیں اور اس کی بڑی وجہ باغات کے مالکان کو سال بھر کی محنت کی کمائی کا کم ملنا ہے۔ اگر یہاں کولڈ اسٹوریج سسٹم متعارف کرایا جائے، تو پھر یہاں کی زرعی زمین اور خاص کر سیب کے باغات کو لاحق خطرات کم ہوسکتے ہیں۔
شہریار کا مزید کہنا ہے کہ جیسے ہی گوالیری کا سیب ملک کی بڑی منڈیوں میں پہنچتا ہے، تو وہاں اسے اسٹور کر لیا جاتا ہے۔ بعد میں جب یہاں ہماری اور دوسرے علاقوں کی دیگر چھوٹی بڑی منڈیوں یا بازاروں میں مکمل طور پر سیب ختم ہوجاتا ہے، تو بڑی منڈی کے مالکان اسے منہ مانگے داموں فروخت کرنے کے لیے واپس چھوٹی منڈیوں اور بازاروں میں بھیج دیتے ہیں۔
ان کے بقول میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ویسے بھی گاؤں گوالیری دو ندیوں کے سنگم پر واقع ہے، اگر یہاں سب سے پہلے مائیکرو ہائیڈرل پاورز (چھوٹے پن بجلی گھر) بنائے جائیں اور اس کے بعد کولڈ اسٹورج سسٹم متعارف کرایا جائے، تو نہ صرف اس سے یہاں کے باغوں کے مالکان کو فائدہ ہوگا بلکہ گاؤں گوالیری پھلوں کی پیداوار میں اضافہ بھی کرے گا۔ اس طرح یہاں پر ایسے پلانٹس بھی باآسانی لگائے جاسکتے ہیں جو پھلوں کا رس نکال کر جوس کمپنیوں کو بیچ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مربہ، اچار اور ،مختلف جیم بنانے والے کارخانوں کو بھی یہی سیب سپلائی کیا جاسکتا ہے۔ یہ کام اتنے مشکل نہیں ہیں لیکن اس کے لیے یہاں کے باغوں کے مالکان میں تھوڑی سی آگاہی مہم چلانا ہوگی۔

تصاویر بشکریہ لکھاری: امجد علی سحاب

No comments:

Post a Comment