Tuesday, 29 July 2025

سفرنامہ استور: پہاڑوں کی گود میں — (حصہ اول)


"لاہور سے چلاس تک بائیکوں پر ایک خواب کا تعاقب"
کہتے ہیں کہ کچھ خواب آنکھوں سے دیکھے جاتے ہیں، اور کچھ وہ ہوتے ہیں جو سڑک پر، رفتار میں، بادلوں کے سائے تلے، اور بائیک کے ہینڈل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بیدار ہوتے ہیں۔
استور ایک ایسا ہی خواب تھا—پہاڑوں کے بیچ، قدرت کے حسن میں گندھا ہوا ایک خواب، جسے ہم دس دوستوں نے پانچ بائیکس پر جا کر جینا چاہا۔
سفر کی تیاری اور آغاز۔
سفر کا آغاز ہوا لاہور کی تپتی گرمیوں سے، جہاں نہ دھوپ کی شدت میں کمی تھی، نہ زندگی کی مصروفیت میں۔ لیکن ہمارے دل میں کچھ اور ہی آگ لگی تھی—ایک الگ دنیا کی، جو پہاڑوں میں چھپی بیٹھی تھی۔
ہم نے فیصلہ کیا کہ بائیکس کو نیازی اڈے سے سکائی ویز بس سروس کے ذریعے روانہ کیا جائے، تاکہ خود کو لاہور سے مانسہرہ تک کے تھکن زدہ راستے سے بچایا جا سکے۔ بائیکس کو بڑی احتیاط سے لوڈ کیا گیا۔ ان لمحوں میں جوش بھی تھا، بےچینی بھی، اور دل میں ایک ہی سوال:
کیا یہ سفر ویسا ہی ہوگا جیسا ہم نے سوچ رکھا ہے؟
پہلا پڑاؤ۔ مانسہرہ
جب سورج نے مانسہرہ کی پہاڑیوں پر سنہری روشنی بکھیری، ہم نے اپنے بائیکس دوبارہ سنبھال لیے۔ شہر کی خاموش صبح، ہلکی خنکی، اور پہاڑوں کے سائے میں ہماری بائیکس کا پہیہ جب گھوما، تو ایسا لگا جیسے زندگی نے نئی رفتار پکڑ لی ہو۔
بارشوں کا ساتھ:
مانسہرہ سے سفر شروع کرتے ہی بارش نے ہمارا استقبال کیا۔ بارش کی بوندیں جب ہیلمٹ پر پڑتی تھیں، تو ایسا لگتا تھا جیسے قدرت ہمارے سفر پر دعائیں بھیج رہی ہو۔ سڑکیں چمک رہی تھیں، فضا معطر تھی، اور ہر منظر جیسے فلم کے کسی خوابناک سین کا حصہ تھا۔
بارش کاغان تک ہمارے ساتھ رہی۔ اس کے بعد آسمان صاف ہو گیا، جیسے کسی نے سفر کی راہ ہموار کر دی ہو۔ ناران میں کچھ ہی دیر سستانے کے بعد ہم نے رخت سفر بابوسر کیلئے باندھا تاکہ جلد ازجلد کسی محفوظ مقام پر پہنچا جا سکے۔
بابوسر پاس: جنت کا دروازہ
17 جولائی کی شام پانچ بجے ہم پہنچے بابوسر ٹاپ — وہ مقام جہاں ہوا بھی سانس لیتے ہوئے تھمتی ہے، اور نظر کا دائرہ بادلوں سے باتیں کرتا ہے۔
بابوسر پاس، سطح سمندر سے تقریباً 13,700 فٹ (4173 میٹر) کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ مقام کاغان وادی کو چلاس سے ملاتا ہے اور ایک زمانے میں تاجروں، سپاہیوں اور سیاحوں کا اہم گزرگاہ ہوا کرتا تھا۔
تاریخی طور پر، بابوسر وہ قدیم راستہ ہے جسے برٹش راج کے دور میں "بابوسر روٹ" کے نام سے جانا جاتا تھا، جو کہ گلگت تک رسائی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس وقت یہاں سے برٹش پولیٹیکل ایجنٹس اور دیگر اہلکار گزرتے تھے اور یہ علاقہ شمالی علاقوں سے رابطے کی واحد پکی راہ سمجھا جاتا تھا۔ یہاں ایک برطانوی طرز کی یادگار بھی قائم ہے جو اس تاریخی گزرگاہ کی علامت ہے۔
بابوسر کے مقام پر ہم نے رک کر تصویر کشی کی، چائے پی، اور یخ بستہ ہواؤں کو دل میں اتارا۔ فضا میں عجیب سا سحر تھا—نہ مکمل خاموشی، نہ مکمل شور، بس ہوا کی گونج، چلاس کی طرف اترے ہوئے پہاڑ بادل سبزہ، بل کھاتی سڑک کے کئی خم اور دل کی تیز ہوتی دھڑکن۔
یہ وقت اور مقام ہمیں اس سفر کا پہلا روحانی اور وجدانی جھٹکا لگا رہا تھا۔
چلاس: ایک خطرناک مگر دلفریب پڑاؤ۔
دن بھر کے سفر کے بعد، جب سورج پہاڑوں کے پیچھے چھپنے لگا، ہم چلاس پہنچے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں پتھریلے پہاڑوں کا رنگ سنہری ہو جاتا ہے اور دریائے سندھ کی گونجتی ہوئی آواز دل کو عجیب سی سحر میں لے جاتی ہے۔اگرچہ چلاس کا قیام مختصر تھا لیکن بہت پُراثر محسوس ہوا تھا ۔ جس ہوٹل میں ٹھہرے رات کے اندھیرے میں اس کے پیچھے چھپا سیاہ پہاڑ اپنے سحر میں مبتلا کر رہا تھا۔ اسے دن کی روشنی میں دیکھنے کا خیال دل میں مچلنے لگا۔ ہوٹل میں شام کی چائے، تھکن زدہ مسکراہٹیں، اور اگلی صبح کے خواب، سب کچھ ایک الگ ہی کیفیت لیے ہوئے تھا۔
اگلا پڑاؤ: استور – خواب کا دروازہ۔
صبح کی ٹھنڈی ہوا کے ساتھ جب ہم نے چلاس سے استور کی طرف روانگی کی، تو ہمارے دل میں ایک ہی خیال تھا:
"کیا استور واقعی اتنا حسین ہے جتنا سنا ہے؟ یا یہ پہاڑ ہمیں کچھ اور دکھانے والے ہیں؟"
(جاری ہے...)