ماہرین کے خیال میں اس قلع کو 17ویں صدی میں دو بھائیوں میر کرم علی خان تالپور اور میر مسعود جٹ نے 12لاکھ میں تعمیر کیاتھا۔یہ ایک بہت بڑا قلعہ ہے جو کہ کتھار ہلز کی سیاہ پہاڑیوں کو آپس میں ملاتا ہے۔اس میں بے شمار برجیاں ہیں جن میں سے تین نیم دائرہ نماہیں۔قلعہ کا شمالی حصہ قدرتی طور پر اونچا ہے جبکہ باقی تینوں اطراف قلعہ کی اونچی دیواروں پر مشتمل ہیں۔اس قلعہ کے اندر بھی ایک چھوٹا قلعہ ہے جسے "میری" کہاجاتا ہے۔یہ چھوٹا قلعہ مین گیٹ سے تقریباً 5 - 6کلومیٹر اندر جاکر ہے اور میر شاہی خاندان کا محل بھی کہا جاتا ہے۔یہ قلعہ زگ زیگ کی شکل میں ہے اور اِس کی تعمیر چونے اور پتھر سے کی گئی ہے۔قلعے کے چار داخلی دروازے ہیں جو کہ رہنبوئڈکی شکل کے ہیں۔دو دروازے ترچھی شکل میں دریائے سان کی طرف ہیں جس کی وجہ سے یہاں تک پہنچنامشکل ہے۔سان گیٹ کی حالت بہت اچھی ہے۔ اس کے دونوں طرف آیا جاسکتا ہے۔یہی گیٹ میری کی طرف جاتا ہے۔قلعے کی بحالی کا کام شروع ہوا تھااور یہ کام محکہ اثارِقدیمہ پاکستان ،سندھ کلچرل ڈیپارٹمنٹ اور دادو ضلع کونسل کی زیرِ نگرانی تھا مگر 2005میں ایک انکوائری کی صورت میں یہ معلوم ہوا کہ اِس کی تعمیرات غیر معیاری کی جا رہی تھیں اور اس قلعہ کی بحالی کے کام میں من پسند لوگوں کو نوازا جا رہا تھاجس کی بنا پر اِس کا کام 2006میں روک دیا گیاجا رہا تھاجس کی بنا پر اِس کا کام 2006میں روک دیا گیا
پاکستان کے کسی بھی شعبہ ہائے زندگی کی طرح اِس شعبہ میں بھی کرپشن کی وجہ سے یہ جگہ جو ایک خزانے سے کم نہیں برباد ہو رہی ہے۔ اِس بیش بہا خزانے تک پہنچنے کے لئے سیاحوں کو نیشنل ہائی وے پر شمال کی جانب حیدرآباد سے 90کلومیٹر سفر کرناپڑے گایا پھر انڈس ہائی وے پر کراچی سے سان کی طرف تقریباً ایک کی مسافت طے کرنا پڑے گی۔سان گیٹ تک پہنچنے کے لئے سان قصبہ سے تقریباً 21کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑے گا۔
"سان "کوٹری ۔لاڑکانہ ریلوے لائن ریل ہیڈ ہے۔اس قلعہ کو اردو میں رانی کوٹ اور سندھی میں رنی کوٹ کہا جاتا ہے۔